* گو بلاتا رہا شجر کوئی *
گو بلاتا رہا شجر کوئی
مجھ کو درپیش تھا سفر کوئی
سر پہ سورج اٹھائے چلتا تھا
اپنے سائے سے بے خبر کوئی
اپنی تنہائیوں کے صحرا میں
سو گیا دھوپ اوڑھ کر کوئی
میں اکیلا نشیب میں اترا
ساتھ آیا نہ ہمسفر کوئی
مدتوں بعد گھر کو دیکھا تو
کوئی دیوار تھی نہ در کوئی
دیکھتا ہوں تو گھورتی ہے مجھے
آئنے میں چھپی نظر کوئی
ہم بھی دل کو چراغ کر لیں گے
ہم ستارا ملا اگر کوئی
لوگ پتھر کے لگ رہے ہیں مجھے
ان پہ جادو کا ہے اثر کوئی
بادلوں کو ہوا سناتی ہے
پانیوں پر لکھی خبر کوئی
جان لیوا ہے اتنی خاموشی
مہرباں دوست! بات کر کوئی
رت جگے کی صلیب پر ناصر
میں نے دیکھا تھا خواب گر کوئی
(نصیر احمد ناصر، 1978ء)
|