* وہ گئے، تہمت گئی، رخصت شکیبائی ہو *
وہ گئے، تہمت گئی، رخصت شکیبائی ہوئی
رفتہ رفتہ اپنی دنیا ہی ، گئی آئی ہوئی
اپنی رسوائی کا غم تھا جب ہمیں وہ دن گئے
اب تو یہ غم ہے کہ ایسی پھر نہ رسوائی ہوئی
جانتے ہیں یہ کہ پہچانا نہیں کوئی ہمیں
یہ نہیں معلوم کس کس سے شناسائی ہوئی
کیاکہا میں اور تمنا عشرت گمگشتہ کی
وہ مری سوبار کی کھوئی ہوئی پائی ہوئی
٭٭٭
|