* شعلۂ آبِ جاں نہ دیکھ سکوں *
غزل
شعلۂ آبِ جاں نہ دیکھ سکوں
ریت پر مچھلیاں نہ دیکھ سکوں
مجھ سے رکھ اتنا فاصلہ پیارے
تیری کمزوریاں نہ دیکھ سکوں
وہ وہاں سے یہاں نہ آپائے
میں یہاں سے وہاں نہ دیکھ سکوں
اس لئے چھین لیں مری آنکھیں؟
پھول اور تتلیاں نہ دیکھ سکوں
میں تری چال پر نثار میاں
تیری بیساکھیاں نہ دیکھ سکوں؟
گرمیاں خون میں نہیں باقی
شاید اب سردیاں نہ دیکھ سکوں
اشکؔ طوفان دیکھ سکتا ہوں
ڈوبتی کشتیاں نہ دیکھ سکوں
+++
|