* سفر میں دھوپ ہے تو سائے بان بھی ہوگ *
غزل
سفر میں دھوپ ہے تو سائے بان بھی ہوگا
زمین ہوگی جہاں آسمان بھی ہوگا
تجھے سکول میں بھیجا ہے جس کتاب کے ساتھ
بغور پڑھنا تیرا امتحان بھی ہوگا
مری پسند کے افراد جس میں رہتے ہوں
زمیںپہ ایسا کوئی خاندان بھی ہوگا
سنا ہے شہر خموشاں میں آگیا ہوں میں
یہیں کہیں کوئی میرا مکان بھی ہوگا
مرے وکیل کی غداریاں عیاں ہوںگی
سنا ہے’’ کورٹ‘‘ میں میرا ‘‘ بیان بھی ہوگا
خبر کہاں تھی میری روح ایک مسجد ہے
شب وجود میں ماہِ اذان بھی ہوگا
وہ مجھ سے بچھڑا میں رودھو کے اشک بھول گیا
پتہ نہیں تھا کہ دلِ پر نشان بھی ہوگا
====
|