* ایسا سحاب لادے *
غزل
ایسا سحاب لادے
صحرا میں آب لادے
چہرہ نہیں ہے اُس کا
اُس کو نقاب لادے
سوجائیں بوڑھی آنکھیں
بچے کا خواب لادے
کوئی سارےلے لے
میرا گلاب لادے
جو شام کو نہ ڈوبے
وہ آفتاب لادے
میرا سوال لے جا
اس کا جواب لا دے
مرا جام مر رہا ہے
قطرہ شراب لادے
سرکٹ چکےہیں سارے
اب انقلاب لا دے
موتی سنہری مچھلی
کچھ زیرِ آب لادے
====
|