* وہ غم کھا کر بھی کیوں روتا نہیں ہے *
غزل
وہ غم کھا کر بھی کیوں روتا نہیں ہے
کسی نے آج تک سوچانہیں ہے
جو دانہ ڈھونڈنے نکلا تھا گھر سے
وہ پنچھی آج تک لوٹا نہیں ہے
یہ ہو سکتا ہے وہ آجائے مُڑ کر
مگر ایسا کبھی ہوتا نہیں ہے
میں ا س لڑکی پہ عاشق ہو گیا ہوں
جسے میں نے کبھی دیکھا نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیں اس گھر کی اب بھی
مگر وہ چاند سا چہرا نہیں ہے
خدا کے بندو آئو مل کے سوچیں
خدا بندوں کو کیوں ملتا نہیں ہے
مروّت کی تجوری بند رکھنا
یہ سکہ شہر میں چلتا نہیں ہے
محبت کے مکاں خالی پڑے ہیں
کوئی اشکؔ اِن میںکیوں رہتا نہیں ہے؟
===
|