* ساون میں گھبرا جاتا ہے *
غزل
ساون میں گھبرا جاتا ہے
دل میرا صحرا جاتا ہے
’’الف‘‘ سمجھ میں آجاوے تو
سب کچھ پڑھنا آجاتا ہے
برف کا اک اک آنسو پی کر
دریا وجد میں آجاتا ہے
اصل سفر ہے وہاں سے آگے
جہاں تلک رستا جاتا ہے
لڑکی میلے میں تنہا تھی
سوچ کے دل بیٹھا جاتا ہے
جب میں جنگل ہو جاتا ہوں
مور ناچنے آجاتا ہے
شاید اس نے دستک سن لی
دیکھو! در کھلتا جاتا ہے
نیند کے بین بجاتے ہی اشک
بستر میں سانپ آجاتا ہے
===
|