* پاس آکر تو کبھی زخم نہ دیکھا میرا *
غزل
پاس آکر تو کبھی زخم نہ دیکھا میرا
دور سے چیختا رہتا ہے مسیحا میرا
مجھ کو پیتے گئے پیاس اپنی بجھاتے گئے لوگ
اب تو صحرا کی طرح لگتا ہے دریا میرا
وہ جو اک پیڑ ہے صندل کا کسی کے گھر مےں
اس کی خوشبو سے رہا ہے کبھی رشتہ میرا
بوسہ دیتے ہیں اُسے آج بھی آنسو میرے
اُس کے آئینے میں ہے آج بھی چہرہ میرا
کسی پتھر کو خدا کی طرح پوجا تھا جہاں
آج تک روتا ہے اس شہر میں سجدا میرا
میری آوارگی دے گی اُسے جی بھرکے دُعا
جو بتائے گا مجھے اشک ؔ ٹھکانا میرا
=====
|