* کھلونے دیکھتا ہے چیختا ہے *
غزل
کھلونے دیکھتا ہے چیختا ہے
وہ بچپن ہی میں بوڑھا ہو گیا ہے
میں قطرے میں سمٹنا چاہتا ہوں
بہت دن سے سمندر کہہ رہا ہے
بزرگوں کو خدایا بھیج فوراً
دعا کا خوں زمیں نے کر دیا ہے!!
کہاں سے آگئے چہروں کے جنگل!
ہمارا شہر خالی ہو گیا ہے!!
کبھی ہم جس کی چھت پر کھیلتے تھے
سنا ہے آج وہ گھر ڈھے گیا ہے!!
وہ مل جائے تو آنکھیں پیش کردوں
جسے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے
سکوتِ مرگ ہے جنگل میں لیکن
کہیں پر اک پرندہ بولتا ہے
جہاں میری نظر جاتی نہیں ہے
وہاں سے کوئی مجھ کو دیکھتا ہے
میں کیسے اشک پھولوں کو مسل دوں
مری نظروں میں ہر خوشبو خدا ہے
===
|