* قبروں میں جو چھپے ہیں *
غزل
قبروں میں جو چھپے ہیں
محفوظ ہو گئے ہیں
اندر نہ جائیے! صاحب
کپڑے بدل رہے ہیں
چڑکوں کے زخمی بچے
بندوق مانگتے ہیں
چٹان جانتی ہے
سیلاب کب رُکے ہیں
کچھ دن سے کان میرے
دیوار سے لگے ہیں
کردار پانیوں کا
مچھلی سے پوچھتے ہیں
دیوان رہ گیا ہے
اوراق اُڑ چکے ہیں
بچوں کے ساتھ بوڑھے
اسکول جا رہے ہیں
فصلیں تو بچ گئی ہیں
دھقان جل گئے ہیں
تنقید رو رہی ہے
نقّاد ہنس رہے ہیں
جنگل کے سارے بندر
شہروں میں آگئے ہیں
جو عطر بانٹتے تھے
بارود بیچتے ہیں
===
|