* دل کو پھول بنایا کر *
غزل
دل کو پھول بنایا کر
پھر درگاہ میں جایا کر
پانی نکلے پتھر سے
ایسا تیر چلایا کر
کوئی دعا کا پیڑ لگا
ننگے سروں پر سایا کر
آنکھیں مرجاتی ہیں یار
اتنی دور نہ جایا کر
تتلی ہاتھ نہ آئے گی
بچوں کو سمجھایا کر
تیری خیر اسی میں ہے
سب کی خیر مناےا کر
ملنا ہو تو اندر کے
دروازے سے آیا کر
گیت سنہری مچھلی کے
دریا دریا گایا کر
میں تیرا ہمسایہ ہوں
پیارے آیا جایا کر
شہرِ سیاست میں اے اشک
دل لے کر مت جایا کر
===
|