* جو سراپا دعا نہیں ہوتا *
غزل
جو سراپا دعا نہیں ہوتا
ہاں وہ بوڑھا بڑا نہیں ہوتا
جا پڑوسی کے گھر کی آگ بجھا
آگ کا کچھ پتا نہیں ہوتا
بھیڑکو چیرنا ہی پڑتا ہے
بھیڑ میں راستا نہیں ہوتا
روز کرنوں کا قتل ہوتا ہے
پھر بھی سورج خفا نہیں ہوتا
مجھ کو اُس حادثے کا خوف ہے کیوں
جو کبھی رونما نہیں ہوتا
ایک دونوں میں بے وفا ہے ضرور
کون ہے؟ فیصلہ نہیں ہوتا
ڈوبنا شرط ہے سمندر میں
پانی گہرا ذرا نہیں ہوتا
علم جو ہو سکے ’’ الف‘‘ کا اشک
پڑھنا لکھنا بُرا نہیں ہوتا
===
|