* سفر کو کچھ تو کر آسان بھائی *
غزل
سفر کو کچھ تو کر آسان بھائی
مکاں میں چھوڑ جا سامان بھائی
ہم اپنے غم بہا آتے تھے جن میں
وہ دریا اب ہیں ریگستان بھائی
رواں تھے گھر کی جانب راستے میں
کھنڈر نے کر لیا مہمان بھائی
کسی نےبد دعا پھولوں کو دی تھی
نہ مہکے پھر بھی کبھی گلدان بھائی
چلوکھیت آنسو ئوں سے سبز کر لیں
کہ بارش کا نہیں امکان بھائی
بزرگوں کو سکھاتے ہیں سیاست
یہ بچے ہو گئے شیطان بھائی
ہیں اک ہی ماں کے دو گم گشتہ بچے
یہ ہندستان پاکستان بھائی
تمہارے شہر کی بنیاد میں ہے
ہمارے گائوں کی پہچان بھائی
سکوں یاں ہے کہ واں سچ بول اے اشک
نگر اچھا کہ قبرسان؟ بھائی؟
===
|