* سفر میں مجھ سے وہ لڑتا رہا تھا!! *
غزل
سفر میں مجھ سے وہ لڑتا رہا تھا!!
بچھڑتے وقت پھر کیوں رو پڑا تھا!!
نہ پکڑی قافلے کی جس نے انگلی !
وہ بچّہ سب سے آگے چل رہا تھا!!
سمندر چیختا تھااس وقت پہنچا!
مکاں پوری طرح جب جل چکا تھا!!
وہ میرے گھر میں آکر چھپ گئی تھی!
میں جس لڑکی کا پیچھا کر رہا تھا!!
حویلی سائیں سائیں کر رہی تھی!
قضا کا بھوت منہ پھاڑے کھڑا تھا!!
وہ اپنی زندگی سے کیسے ملتا !
کہ سرحد پر کڑا پہرا لگا تھا!!
مسیحے کھڑکیوں میں ہنس رہے تھے!
میں شہر درد شہری درد میں چلّا رہا تھا!!
چمکتے تھے سروں پر دھوپ خنجر!
دعا برگد تو کب کا کٹ چکا تھا!!
ہوا آری چلاتی جا رہی تھی!
شجر سے اشک میں لپٹا ہوا تھا!!
====
|