* باپ نہ ماں نے بیوی بچّہ سائیں! میرا *
غزل
باپ نہ ماں نے بیوی بچّہ سائیں! میرا کوئی نہیں
سارا گھر ہے سائیں میرا!سائیں! میرا کوئی نہیں
طفلِ سراپا زخم ہوں تنہا چھوڑ گئے مجھے’’ بابا لوگ‘‘
مرہم مانگوں کس سے دعا کا؟ سائیں! میرا کوئی نہیں
تب میں نے تیری بات نہ مانی اب میں دہائیاں دیتا ہوں
دونوں جہاں میں تیرے علاوہ ! سائیں!میرا کوئی نہیں
کون سخی در ہے میں جس سے بھوکے پیٹ کا درد کہوں
کون کھلاوے عشق کا ٹکڑا؟ سائیں! میرا کوئی نہیں
بادل مجھ پر کبھی نہ رویا حال نہ پوچھا دریا نے
میں ہوں ہجر کا جلتا صحرا! سائیں! میرا کوئی نہیں
عرش اور فرش کو مارکے ٹھوکر تیرے در پر بیٹھا ہے
رورو پکارے اشک بچا را! سائیں! میرا کوئی نہیں
===
|