* سمندر میں کھڑے ہو رو رہے ہو! *
غزل
سمندر میں کھڑے ہو رو رہے ہو!
یہ کیسی میلی چادر دھو رہے ہو!!
یہ دنیا مسئلہ اللہ کا ہے!
یہ مٹی سرپہ تم کیوں ڈھو رہے ہو!!
ہمارے آنسوئوں کے جگنوئوں سے !
ستارو! کیوں پریشاں ہو رہے ہو!!
سمندر کو دکھا کر آگ اب کیوں!
دعا کی بارش کو رو رہے ہو !!
جہاں پرکھوں کے سجدوں کے نشاں ہیں!
وہ گلیاں خون سے کیوں دھو رہے ہو!!
سنا ہوگا ہمار ا حادثہ بھی !
ہمارے شہر میں تم تو رہے ہو!!
نہیں گر جانِ جاں تو دشمنِ جاں !
ہماری جان کے کچھ تو رہے ہو!!
تمہیں تو خوب ہنسنا چاہئے اشک!
ہمارے حال پر تم رو رہے ہو!!
===
|