* سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا *
عزل
سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا
ندی کو ڈر کسی چٹان کا نہیں ہوتا
وہ جب بھی روتا ہے میں ساتھ روتا ہوں
مزے کی بات ہے اس کو پتا نہیں ہوتا
مسافروں کے لئے منزلیں ہی ہوتی ہیں
مسافروں کے لئے راستا نہیں ہوتا
تماشا گاہ میں کس کا تماشا ہوتا ہے
تماش بینوں کا اس کا پتا نہیں ہوتا
میں روز ’’ فون ‘‘ پر اس کو صدائیں دیتا ہوں
خدا کے سامنے مرا رابطانہیں ہوتا
جہاں ملیں انہیں سجدے گزارئیے صاحب
محبتوں کے لئے سوچنا نہیں ہوتا
وہاں چراغ جلاتا ہوں زندگی کا اشک
جہاں ہوا کے لئے راستا نہیں ہوتا
٭٭٭
|