* عشق کی چوٹیں دل نہیں سکتا جھیل، خد *
غزل
عشق کی چوٹیں دل نہیں سکتا جھیل، خدایا رحم ذرا
میں نے بچپن میں کھیلا یہ کھیل ، خدایا رحم ذرا
بھوکا ، پیاسا زخمی پنچھی کب آپہنچے ، کیا معلوم
سوکھ نہ جاوے انگوروں کی بیل، خدایا رحم ذرا
ماں کے ہاتھ کی بس اک روٹی دوڑ کے کھا کر آجائوں
گھر جانے کی دے دی اتنی ’’ ویہل‘‘، خدایا رحم ذرا
ایک سنہری مچھلی سے کیا میں نے پوچھا اس کا نام
مانجھی نے ساگر میں دیا دھکیل، خدایا رحم ذرا
اپنے نام کا سورج مجھ پر جلدی جلدی کر روشن
ختم نہ ہو جاوے آنکھوں کا تیل ، خدایا رحم ذرا
تو فریاد قبول کرے تو میںسرسبز نہ ہو جائوں
ورنہ ساگر اور صحرا کا میل؟ ، خدایا رحم ذرا
ہجر کے اسٹیشن پر تنہا چھوڑ نہ جائے ہائے کہیں
نکل نہ جائے ساجن والی ریل ، خدایا رحم ذرا
تیری کتاب کے اک اک لفظ کورٹ رکھا ہے تو پھر کیوں
امتحان میں ہو جاتا ہوں فیل ، خدایا رحم ذرا
دے دے اشکؔ کو تازہ ہوا سے وصل کے کوئی دو اک سانس
توڑ دے سنگ و آہن والی جیل ، خدایا رحم ذرا
٭٭٭
|