* بس ایک زخم ہے جس کا چراغ جلتا ہے *
غزل
بس ایک زخم ہے جس کا چراغ جلتا ہے
ہمارے شہر میں سورج کہاں نکلتا ہے
غزل کی چاندنی دروازے کھول دیتی ہے
وہ بند کمرے میں ملبوس جب بدلتا ہے
یہ کس نے قتل کیا شہر خوش کلام مرا
میں جس سے بات کروں بے زباں نکلتا ہے
یہ غم کا بچہ مری انگلی چھوڑتا ہی نہیں
کہیں بھی جائوں مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
خدا کی طرح چمکتا ہے دل کے شیشے میں
دعا کا آنسو کہاں آنکھ سے نکلتا ہے
ہمارے شہر میں اک ایسا کنبہ ہے جس میں
ترقی دیکھ کے بچوں کی باپ جلتا ہے
خوشی کی شاخ پر آری چلے تو مت رونا
یہ پیڑ جتنا کٹے اشک اتنا پھلتا ہے
٭٭٭
|