* موسم سوکھے پیڑ گرانے والا تھا *
ؑغزل
موسم سوکھے پیڑ گرانے والا تھا
کسی کسی میں پھول بھی آنے والا تھا
پار کے منظر نے موقع پر آنکھیں دیں
میں اندھا دیوار اُٹھانے والا تھا
اُس نے بھی آنکھوں میں آنسو روک لئے
میں بھی اپنے زخم چھپانے والا تھا
تم نے کیوں بارود بچھادی دھرتی پر
میں تو دعا کا شہر بسانے والا تھا
وہ لڑکی تو کب کی مر گئی یاد آیا!
میں کس کو آواز لگانے والا تھا
گھر کے چراغ نے آگ لگادی بستی میں
میں سورج دہلیز پر لانے والا تھا
میری دنیا کیسے اس کو راس آتی ہے
اس کا ہر انداز زمانے والا تھا
بچے اشک کو پاگل کہہ کر بھاگ گئے
وہ پریو ںکی کتھا سنانے والا تھا
٭٭٭
|