* وطن سے دور اُڑتا جا رہا ہے *
غزل
وطن سے دور اُڑتا جا رہا ہے
کوئی روکو پر ندا جا رہا ہے
محبت کو سنا ہے دل کے بدلے
عجائب گھر میں رکھا جا رہا ہے
ندی دامن چھڑا کر جا رہی ہے
کہ دریا خشک ہوتا جا رہا ہے
مری پائل کی سانسیں جاں بلب ہیں
وہ ڈھولک تھپتھپاتا جا رہا ہے
ہوا سے عشق کر بیٹھا ہے ظالم
مثال گُل بکھرتا جا رہا ہے
دیا ہے جسم تو پھر روح سے کیوں؟
ہمیں محروم رکھا جا رہا ہے
بہت سوں کو رہائی مل چکی ہے
مرے بارے میں سوچا جا رہا ہے
میں سوکھی شاخ سے لپٹا ہوا ہوں
مرا تن من مہکتا جا رہا ہے
ہمارے سچے جھوٹے سب فسانے
خدا خاموش سنتا جا رہا ہے
کدھر یہ پائوں تیرے اٹھ رہے ہیں؟
کدھر یہ اشکؔ رستا جا رہا ہے
٭٭٭
|