* صحرا صحرا مجھ کو پینے آتا ہے *
غزل
صحرا صحرا مجھ کو پینے آتا ہے
مرا سمندر صحرا ہو تا جاتا ہے
رات کی چھت پر اندھی ماں رستہ دیکھے
چاند کو لے کر بالک کب گھر آتا ہے
دل کے زخم پہ مرہم کام نہیں کرتے
دل کے زخم پہ بوسا رکھا جاتا ہے
میرے شہر میں ستر سال کا اک بوڑھا
بچوں کے گھر میں دیوار اُٹھاتا ہے
سوکھے کھیتوں سے کہہ دو پانی لے لیں
مری آنکھ سے دریا بہتا جاتا ہے
اندر مٹی سونا ہوتی جاتی ہے
باہر سونا مٹی ہوتا جاتا ہے
ہر رستے پر میں نے چل کر دیکھ لیا
ہر اک رستہ تیرے گھر کو جاتا ہے
روز شام کو چھپنے سے پہلے اے اشک
سورج مرا چراغ جلا کر جاتا ہے
٭٭٭
|