* زمیں کو اے خدا وہ زلزلہ دے *
غزل
زمیں کو اے خدا وہ زلزلہ دے
نشاں تک سرحدوں کے جو مٹا دے
محبت میں بدل جائے سیاست
خدا! لاہور دلّی سے ملا دے
بزرگوں کا بس اک کمرا بچا کر
تو جب چاہے پرانا گھر گرا دے
’’الف‘‘ سے آشنا اسکول کوئی
مرے بچوں کو جو پڑھنا سکھا دے
خوشی میں ایسی گولی مت چلانا
شجر سے جو پرندوں کو اُڑا دے
مہاجر کا مکاں خالی ہے لیکن
میں در کھولوں تو کوئی بدعا دے
فلک پر اک ستارا رہ گیا ہے
خدا اس کو مری قسمت بنا دے
مرا کردار بھی کر قتل یارب
مجھے بھی شہر میں جینا سکھا دے
میں سورج توڑ لائوں گا نہیں تو
مجھے اے روشنی اپنا پتا دے
ترا پیشہ وکالت ہے تو تجھ کو
خدا سچ بولنے کا حوصلہ دے
میں ہمسایا ہوں تیرا اشک مجھ کو
ذرا سی دھوپ تھوری سی ہوا دے
٭٭٭
|