* میرے خلاف آکاش میں کوئی سازش کرتا *
غزل
میرے خلاف آکاش میں کوئی سازش کرتا رہتا ہے
میری قسمت والا تارا گردش کرتا رہتا ہے
دودھ کی خالی بوتل سے بھی بچے کا ہے عشق عجیب
تھک جاتے ہیں ہونٹ مگر وہ وکاوش کرتا رہتا ہے
باغ انگور کے چھوڑ آیا تھا سرحد پار جوانی میں
پاگل بوڑھا پل پل’’ کشمش کشمش ‘‘ کرتا رہتا ہے
تو کانٹوں کو بوسے دیتی رہنا اے میری خوشبو
مر جھانے سے پہلے پھول گذارش کرتا رہتا ہے
پہنچ کے منزل پر بھی بھولا نہیں سفر کے محسن کو
پھٹے پرانے جوتے پر وہ پالش کرتا رہتا ہے
یا تو آگ دکھاتا رہتا ہے وہ میری فصلوں کو
یا پھر اشک مرے کھیتوں پر بارش کرتا رہتا ہے
٭٭٭
|