* دل کے ہاتھ میں ڈمرو تھا *
غزل
دل کے ہاتھ میں ڈمرو تھا
روح کے پائوں میں گھنگرو تھا
زخم سمندر چاروں اور
بیچ غزل کا ٹاپو تھا
پھول مسل کر روتا ہوں
یہ تو سچ مچ خوشبو تھا
سورج نگل گیا اس کو
میرے پاس اک جگنو تھا
کیا آتا مسجد میں خدا
دعا کے ہاتھ میں چاقو تھا
چاند زمیں پر کیا اترا
ہر بچہ بے قابو تھا
یاد ہے بچپن کا وہ کھیل؟
میں صیاد تو آہو تھا
رات خدا بھی سونہ سکا
چشم دعا میں آنسو تھا
ایک سہارا بس تو ہے
ایک سہارا بس تو تھا
مجھ کو دیکھ کے ننگے سر
برگد آنسو آنسو تھا
اک لڑکی نے کیا خراب
ورنہ اشک تو سادھو تھا
٭٭٭
|