* سیب تو کب کا پکا ہوا ہے *
غزل
سیب تو کب کا پکا ہوا ہے
باغ میں ’’ کرفیو ‘‘ لگا ہوا ہے
جسم پہ کپڑا کہیں نہیں ہے
سر چادر سے ڈھکا ہوا ہے
جہاں مری کشتی ڈوبی تھی
دریا وہیں پر رکا ہوا ہے
اہلِ کتاب کو کون بتائے
الف کہاں پر چھپا ہوا ہے
رقاصہ تو دفن ہے لیکن
قبر پہ گھنگرو پڑا ہوا ہے
لوگ کناروں پر ہیں پریشاں
تو دریا میں چھپا ہوا ہے
لہو میں نہا نہا کر برگد
بڑے دنوں میں ہرا ہوا ہے
چھوڑ چکا ہے خدا بھی مسجد
دعا چراغ بھی بجھا ہوا ہے
اشک غزل تحریر ہے دل پر
چاند کا آنسو گراہوا ہے
٭٭٭
|