* کبھی نہ میں نے داغ لگایا عشق کے اُج *
غزل
کبھی نہ میں نے داغ لگایا عشق کے اُجلے چہرے پر
کبھی شراب نہ پی ترے غم میں پائوں نہ رکھا کوٹھے پر
تونے میری گاگر ریت سے بھر دی میرا دوش تھ کیا
میں تو اپانی میں اترا تھا دریا تیرے کہنے پر
یا د ہے؟ ایک کبوتر تیری چھت پر آیا کرتا تھا
کچھ دن پہلے کسی نے گولی ماردی اس کے سینے پر
اس لڑکی کے ساتھ رہیں گی میرے عشق کی خوشبوئیں
میرے اشکوں کی شبنم ہے جس کے پھول سے چہرے پر
کچھ پل ٹھہرا، پھوٹ کے روایا آہ بھری پھر لوٹ گیا
جانے فقیر نے کس کو دیکھا شہر کے اونچے بنگلے پر
اس کے علاوہ میری بصارت کون مجھے لوٹائے گا؟
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں میں جس کے دروازے پر
سوکھے باغوں پر ساون کے بدال چھا جاتے تھے اشک
جب ہم روتے تھے سر رکھ کے اک دوجے کے شانے پر
٭٭٭
|