* موقعِ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا م *
غزل
پرویز شاہدی
موقعِ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگادی مجھے مرنے نہ دیا
کم سے کم میں غمِ دنیا کو بھلا سکتات ھا
پر تری یاد نے یہ کام بھی کرنے نہ دیا
اس رفاقت پہ فدا میری پریشاں حالی
اپنی زلفوں کو کبھی تونے سنورنے نہ دیا
تیری غم خوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے
غمِ ہستی کی بلندی سے اُترنے نہ دیا
میں نے دیکھا ہے ترے حسنِ خود آگاہ کا رعب
اجنبی نظروں کو چہرے پہ بکھرنے نہ دیا
وہ تری سرخیٔ عارض کے قریب آنہ سکی
رنگ جس فکر کو بھی خونِ جگر نے نہ دیا
حسنِ ہم درد ترا ہم سفرِ شو ق رہا
مجھ کو تنہا کسی منزل سے گذرنے نہ دیا
کتنی خوش ذوق ہے تری نگہِ بادہ فروش
خالی رہنے دیا جام کو بھرنے نہ دیا
٭٭
|