donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Perwez Shahidi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* اے اُون کی چہیتی! اے سرج کی دُلاری *
شیروانی

اے اُون کی چہیتی! اے سرج کی دُلاری
خالِ رُخ صنم کا تھا رنگ تجھ پہ طاری
ہر تار سے نمایاں زلفو ں کی رشتہ داری
چشمِ سیاہ خوباں کا نقشِ سحر کاری
ہے یاد مجھ کو تیری گزری ہوئی جوانی
اے میری شیر وانی
تیری طلب میں دل نے کیا آفتیں اٹھائیں
سو آرزوئیں کچلیں، سو خواہشیں دبائیں
کتنی ضرورتوں کی خود دھجیاں اڑائیں
کتنے جری تقاضوں کی گردنیں جھکائیں
کتنی ’’ریاضیاتی‘‘ گلیوں کی خاک چھانی
اے میری شیر وانی
کتنے ’’ معاشیاتی‘‘ قانون میں نے توڑے
کتنے ہی ’’ مالیاتی‘‘ پچھلے اصول چھوڑے
دوڑائے ’’ ہندسوں‘‘ کے کاغذ پہ کتنے گھوڑے
کتنے بجٹ بنائے ، کتنے حساب جوڑے
کس کس کی بات ٹالی، کس کی بات مانی
اے میری شیر وانی
کتنے جواں ارادوں نے ہاتھ پائو ں مارے
ٹپکے مری جبیں سے کتنے حسیں ستارے
سانسوں سے میری برسے کتنے دبے شرارے
بیم و رجا کے دوزخ میں کتنے دن گزارے
جب جا کے میں نے پایا انعامِ جانفشانی
اے میری شیر وانی
پینتیس کا دسمبر اب تک ہے یاد مجھ کو
سرما کا رقص خنجر اب تک ہے یاد مجھ کو
ٹھنڈی ہوا کا لشکر اب تک ہے یاد مجھ کو
اپنا ٹھٹھرتا پیکر اب تک ہے یاد مجھ کو
بھولا نہیں ہوں، گرچہ ہے داستاں پرانی
اے میری شیر وانی
اس سال تو ہوئی تھی پیدا نگار سرما!
اے مشک رو حسینہ!  عنبر عذارِ سرما!
سنبل سا اون تیرا! تھا پردہ دارِ سرما!
رہتی تھیں تجھ سے لپٹی شب ہائے ہائے تارِ سرما!
ہر صبح تھی زمستاں کی عیدِ کامرانی
اے میری شیر وانی
یادیں ہیں تجھ سے لپٹی کتنی ضیافتوں کی
کتنے مشاعروں کی کتنی صدارتوں کی
کتنی نوازشوں کی کتنی عنایتوں کی
پہلو نوازیوں کی، تپتی محبتوں کی
تھی طرز میہمانی میں شانِ میز بانی
اے میری شیر وانی
کاٹے مری رفاقت میں بیس سال تونے
جھیلا عذاب بادِ سردِ شمال تونے
کی میرے جسم لرزاں کی دیکھ بھال تونے
رکھا ہمیشہ میرے سکھ کا خیال تونے
لیکن بقولِ واعظ’’ دنیا ہے دار فانی‘‘
اے میری شیر وانی
میں بیسواں جنم دن تیرا منا رہا ہوں
پھر بخیہ و رفو کا بربط بجا رہا ہوں
پچھلی نوازشوں کے پھر گیت گا رہا ہوں
ہر چاکِ نو سے تیری آنکھیں لڑا رہا ہوں
دے سکتا کاش تجھ میں عمر جاودانی
اے میری شیر وانی
یہ سچ ہے اب رفاقت آرام چاہتی ہے
تیری مُسن محبت آرام چاہتی ہے
پیر و ضعیف محنت آرام چاہتی ہے
تو جیسے زیرِ تربت آرام چاہتی ہے
ہے موت کا پسینہ ، ماتھے کے تیرے پانی
اے میری شیر وانی
اب تو مَسَک مَسَک کر فریاد کر رہی ہے
زخمِ رفو سے پہلے آباد کر رہی ہے
طرز فغاں انوکھی ایجاد کر رہی ہے
مجھ کو بھی ساتھ اپنے برباد کر رہی ہے
زاہد کے جہل سے لے کر کچھ درسِ سخت جانی
اے میری شیر وانی
سن لے تو سالِ نو کا رنگیں پیام پیاری
کرتا ہے پھر زمستاں کو سلام پیاری
 امسال بھی وفا کا چمکا دے نام پیاری
کر لوں گا پھر میں کوئی اور انتظام پیاری
حالات مانگتے ہیں تھوڑی سی مہر بانی
اے میری شیر وانی
اپنی سہولیوں کی تجھ کو خبر نہیں ہے؟
ہم جولیوں کی حالت کیا خستہ تر نہیں ہے؟
کیا سن رسیدگی کا اُن پر اثر نہیں ہے؟
لاکھوں قمیصوں ، کرتوں پر کیا نظر نہیں ہے؟
دولت کو بے زری سے ہے بغض خاندانی
اے میری شیر وانی
ٹھٹھرے ہوئے بدن اب نعرے لگا رہے ہیں
بوسیدہ پیرہن اب نعرے لگا رہے ہیں
یارانِ انجمن اب نعرے لگا رہے ہیں
نادار اہلِ فن اب نعرے لگا رہے ہیں
ہے چند دن کی مہماں جاڑا کی حکمرانی
اے میری شیر وانی
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 394