donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Perwez Shahidi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* وطن والوں کو تیرا جشنِ صد سالہ مبا *
قیدی گیت
(ٹیگور کی روح سے خطاب)

وطن والوں کو تیرا جشنِ صد سالہ مبارک ہو
چمن افروزیٔ رنگ و گل و لالہ مبارک ہو
گلستاں کی فضائے بے یخ و ژالہ مبارک ہو
عروجِ شعلۂ بے تابِ بنگالہ مبارک ہو
مگر ٹیگور تیری مدح خوانی بھی سیاست ہے
ہوس کے لاڈلوں کی گلفشانی بھی سیاست ہے
ترے نغموں کے خیمے کی طنابیں توڑنے والے
زمیں کی خاک کا رشتہ فلک سے جوڑنے والے
ترے گیتوں کی ارضی روح سے منہ موڑنے والے
پٹک کر آئینہ دنیا کی آنکھیں پھوڑنے والے
مکاں کی گفتگو کو ’’ لا مکانی‘‘ رنگ دیتے ہیں
جہاں رنگ و بو کو ’’ آں جہانی‘‘ رنگ دیتے ہیں
گلا بھی تیرا ارضی تھا،تری آواز بھی ارضی
تری مضراب بھی ارضی تھی، تیرا ساز بھی ارضی
ترے تیور بھی ارضی تھے، ترے انداز بھی ارضی
فضا بھی تیری ارضی تھی ، تری پرواز بھی ارضی
زمیں کی کوکھ سے پیداہوا تھا آسماں تیرا
’’عروجِ آدمِ خاکی‘‘ تھا موضوع بیاں تیرا
چبھے فکرِ فلک پیما‘‘ کے تلووں میں ستارے بھی
ترے قدموں پہ لوٹے آسمانوں کے نظارے بھی
خلا کی اوٹ سے کرتی رہی فطرت اشارے بھی
دئیے آفاقیت نے ماورائی استعارے بھی
سفر تیرا زمینی ، رہ گزر تیری زمینی تھی 
نظارے جس طرح کے ہوں نظر تیری زمینی تھی
ترے احساس میں بچپن کی معصومی پر افشاں تھی
جوانی کی تڑپ ہر شعر کے پردے میں غلطاں تھی
حسیں سنجیدگی پیری کی، گیتوں سے نمایاں تھی
چہکتی زندگی فکرو فن ہم عمر انساں تھی
تو ہر اک گل کا ہم سن تھا، تو ہر غنچے کا ہم سن تھا
ربابِ روح انسانی کے ہر نغمے کا ہم سن تھا
اٹھاکر سازِ مشرق تونے کیسی’’ پوربی ‘‘ چھیڑی
پکارا وقت کا مطرب مری ہی راگنی چھیڑی
بنامِ روشنی چھیڑی، بنام زندگی چھیڑی
ضرورت جس کی تھی فکر و نظر کو دھن وہی چھیڑی
بھری یوں مشرقی نغمو ںمیں روح مغربی تونے
سمو لیں دھڑکنیں دل ایّام کی تونے
وہ ہو جلیانوالہ باغ کی رودادِ بربادی
کہ صیّادِ فرنگی کا چھپا انداز صیاّدی وہ فسطائیت
وہ ہو فسطائیت کی اینڈتی بے شرم جلادی
کہ ایوانِ ملوکیت کی سرکش ’’سستِ بنیادی‘‘
رہی بے باک ہر موقع پر انساں دوستی تیری
 گرجتی آندھیوں میں بھی نہ کانپی بانسری تیری
جبینِ ہند پر تاباں جو عظمت کے ستارے ہیں
وہ انگارے ہیں گیتوں کے، وہ شعروں کے شرارے ہیں
وہ نورانی کنائے ہیں، وہ روشن استعارے ہیں
ترے ہی دل کے ٹکڑے ہیں، تیرے ہی فکر پارے ہیں
جہاں آزادیٔ ہندستاں کا ذکر آتا ہے
وہاں تیرے لبِ گوہر فشاں کا ذکر آتا ہے
مگر ہیں منہمک سازش میں اربابِ ہوس اب تک
دبائی جا رہی ہے تیری آوازِ جرس اب تک
ہیں تنقیدی کتابیں تیرے نغموں کا قفس اب تک
گنے جاتے ہیں غدّاروں میں تیرے ہم نفس اب تک
ہے آزادی کا موسم، ہند کو آباد ہونا ہے
ترے گیتوں کو بھی اب قید سے آزاد ہونا ہے
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 345