* عہد رواں میں خیر کو شر کہہ دیا گیا *
غزل
عہد رواں میں خیر کو شر کہہ دیا گیا
عیبوں کو رنگ دے کے ہنر کہہ دیا گیا
شیرانِ پُرجلال کو خر کہہ دیا گیا
اور گیدڑوں کو شیر ببر کہہ دیا گیا
چھوٹوں کا کچھ لحاظ بڑوں کا نہ کچھ ادب
آیا جو منھ میں ہو کے نڈر کہہ دیا گیا
بینا دلوں کو ہیچ سمجھتے ہیں اب مگر
تیرہ دلوں کو اہل نظر کہہ دیا گیا
جھگڑے میں ملک و مال کے جو پھنس کے مرگیا
اس بد نصیب کو بھی امر کہہ دیا گیا
منھ جیسا ان کا ہے انہیں معلوم ہے مگر
خوش ہوگئے جو رشک قمر کہہ دیا گیا
خون ِجگر کلیجے سے جب آکے آنکھ تک
مثل گہر ہوا تو صفر کہہ دیا گیا
نارد منی کے مکر کی تعریف کی گئی
گوتم کے مشوروں کو لچر کہہ دیا گیا
کیا اعتبار جان کا یہ جانتے ہوئے
نازاں ہیں ان کو جان اگر کہہ دیا گیا
بکتار ہا جو جھوٹ تو سمجھے فراخ دل
سچ کہہ دیا تو تنگ نظر کہہ دیا گیا
کم ظرف آدمی کو حقیقت میں آدمی
کہنا نہ چاہتے تھے مگر کہہ دیا گیا
سوجھا نہ کوئی فرق جنہیں نظم ونثر میں
ان شاعروں کو اہلِ ہنر کہہ دیا گیا
اپنی تمیز ہے نہ جسے غیر کی تمیز
اس بے خبر کو اہل خبر کہہ دیا گیا
رہنا ہے جس میں حشر تک اس کو لحد کہا
دو دن جہاں رہے اسے گھر کہہ دیا گیا
بھولا ہے برقؔ اپنی حقیقت کو آدمی
اس مشت خاک کو جو بشر کہہ دیا گیا
+++
|