* دل ان کی یاد سے جو بہلتا چلا گیا *
غزل
دل ان کی یاد سے جو بہلتا چلا گیا
غم آپ اپنی آگ میں جلتا چلا گیا
تو لامکاں ہے تو مری منزل بھی بے نشاں
تیرے لئے چلا تو میں چلتا چلا گیا
کانٹے جہاں جہاں پہ ملے راہ عشق میں
دامن بچا بچا کے نکلتا چلا گیا
ناکامیوں سے کم نہ ہوا حوصلہ مرا
ٹھوکر لگی تو اور سنبھلتا چلا گیا
موجوں کے رخ کو پھیر دیا میں نے بارہا
طوفان کا سراٹھا تو کچلتا چلا گیا
یہ جانکر کہ غم ہے تری یاد کا سبب
میںہر خوشی کو غم سے بدلتا چلا گیا
اہل زمانہ گرد کو میری نہ پاسکے
ہر قافلے سے دور نکلتا چلا گیا
اشیاء ہیں برقؔ سلسلۂ وحدت الوجود
سو سو طرح سے نام بدلتا چلا گیا
+++
|