* دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا *
غزل
دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا
تیغ ابرو اٹھی سر جدا ہوگیا
جو حسیں دیکھا بس مبتلا ہوگیا
اے مرے دل بتا تجھکو کیا ہوگیا
میرا کچھ بھی نہیں دل ہو یا ہو جگر
آیا جو سامنے آپ کا ہوگیا
جب نظر آیا فوراًجبیں جھک گئی
جائے سجدہ ترا نقشِ پا ہوگیا
آئینہ دیکھ کر بولے کس ناز سے
میرا ثانی یہ کب دوسرا ہوگیا
جب کہا آپ نے مار ڈالا ہمیں
بولے ہاں مار ڈالا تو کیا ہوگیا
خود ہی مرتا ہے حورانِ جنت پہ یہ
کب سے واعظ بڑا پارسا ہوگیا
جاں نکلتے ہی سب کلفتیں مٹ گئیں
درد حد سے بڑا تو دوا ہوگیا
حق ہی حق کہتے منصور تو خوب تھا
کفر آثار لفظِ انا ہوگیا
پارسائی کی وقعت ہی کیا رہگئی
برقؔ سارند اگر پارسا ہوگیا
+++
|