* جس درپہ ترا نقشِ کفِ پانہ رہے گا *
غزل
جس درپہ ترا نقشِ کفِ پانہ رہے گا
رندوں کیلئے قابلِ سجدانہ رہے گا
جاتا تو ہے اس جلوہ گہہِ ناز میں اے دل
کیا ہوگا اگر ضبط کا یارانہ رہے گا
پروانے کو پھونکا ہے تو اے شمع سمجھ لے
تیرا بھی کلیجہ کبھی ٹھنڈا نہ رہے گا
دیوانے کو زنجیر سے گہرا ہے تعلق
کیوں اس کو تری زلف کا سودانہ رہے گا
پروردۂ طوفاں ہے مرے دل کا سفینہ
ساحل کی طرح یہ لبِ دریا نہ رہے گا
جھنجھلا کے کہا اس نے یہ آئینہ پٹک کر
منھ اس میں جو دیکھے گا وہ یکتا نہ رہے گا
مرنے کی ادائوں سے نہیں برقؔ جو واقف
رہتے ہوئے زندہ بھی وہ زندانہ رہیگا
+++
|