* نہ خود آئیے گا نہ بلوایئے گا *
غزل
نہ خود آئیے گا نہ بلوایئے گا
تو کیا پھر یونہیں مجھکو تڑپائے گا
ارے یہ ستم جھوٹ کہہ کر ہمیں سے
ہمارے ہی سر کی قسم کھایئے گا
اٹھا کر مجھے اس نے محفل سے اپنی
کہا کیا یہاں چھائونی چھایئے گا
بہت جلد ڈھل جائیگی یاد رکھئے
جوانی یہ ہرگز نہ اترایئے گا
مئے وانگبیں شیخ حاضر ہیں دونوں
اسے پیجئے گا کہ یہ کھایئے گا
جو آہی گئے ہیں تو کیا بے تواضح
یو نہیں میکدے سے چلے جایئے گا
کرینگے نہ شکوہ ہم اہلِ محبت
کئے پر خود آپ اپنے پچھتایئے گا
غضب ہے ہمارا بھی جذب محبت
سرِ قبر روتے ہوئے آیئے گا
پھڑک جائیں گے سن کے سب اہل الفت
غزل برقؔ صاحب کی جب گایئے گا
++++
|