* جو کی جلد بازی تو پچھتایئے گا *
غزل
جو کی جلد بازی تو پچھتایئے گا
سمجھ بوجھکر عشق فرمایئے گا
نگاہوں سے چھپ کر کہا جایئے گا
تصور میں جھک مار کر آئیے گا
نصیحت سر آنکھوں پہ اے شیخ، لیکن
سمجھ لیجئے گا تو سمجھا یئے گا
کلیم آپ اتنا مصر ہو رہے ہیں
جھلک دیکھتے ہی تو غش کھایئے گا
محبت بھرا دل تو دیتے ہیں مجھکو؎
زمانے میں رسوا نہ کروایئے گا
ہے وہم وگماں سے پرے انکی منزل
کہاں تک خیال آپ دوڑایئے گا
کہاں طالب دید کو صبر اتنا
قیامت کا وعدہ نہ فرمایئے گا
کہیں اور جانے کی کیا ہے ضرورت
انہیں آپ اپنے ہی میں پایئے گا
رسائی جو منظور ہو برق ان تک
تو دیر وحرم سے گزر جایئے گا
+++
|