* رسائی غیر کی دشوار تھی کل شب جہاں م *
غزل
رسائی غیر کی دشوار تھی کل شب جہاں میں تھا
وہ محفل محفلِ اسرار تھی کل شب جہاں میں تھا
محبت ہی کا گلشن تھا محبت ہی کے گل ہر سو
محبت ہی گلے کا ہار تھی کل شب جہاں میں تھا
جہاں کے ذرے ذرے پر خمار خواب تھا طاری
مری قسمت مگر بیدار تھی کل شب جہاں میں تھا
ہجوم حسرت وامید میں تارِ رگِ جاں پر
نفس کی آمد وشد بارتھی کل شب جہاں میں تھا
مراحال زبوں تھا بے کہے خود آئینہ اُن پر
خموشی حاصل گفتار تھی کل شب جہاں میں تھا
یہ عالم تھا کہ عالم سے نرالا تھا مرا عالم
مری دنیا بہشت آثار تھی کل شب جہاں میں تھا
جنونِ انتہائے شوق تھا خضرِ رہِ منزل
خرد گردِ پسِ رفتار تھی کل شب جہاں میں تھا
نگاہیں ہورہی تھیں کثرت انوار سے خیرہ
تجلی مانع دیدار تھی کل شب جہاں میں تھا
حجاب اٹھنے کی نوبت آتے آتے برقؔ کیا کہئے
خود اپنی ہی نظر بیکار تھی کل شب جہاں میں تھا
+++
|