* نظم کے ساتھ جو ہو ضبط کا ساماں پیدا *
غزل
نظم کے ساتھ جو ہو ضبط کا ساماں پیدا
ظلم کا ہو نہیں سکتا کبھی امکاں پیدا
حیف اس فصل بہاراں پہ چمن میں جس سے
جائے گلبرگ ہوئے خار مغیلاں پیدا
مفلسی دیکھ کے فطرت نے چڑھائی چادر
یعنی سبزہ ہوا برگور غریباں پیدا
ستر پوشی تو گناہوں کے سبب ہے لازم
بیگنا ہی میں ہر انساں ہوا عریاں پیدا
پھر سے مردوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے
لفظ گن سے کیا کل عالم امکاں پیدا
تجربہ کر کے یہ نمرود نے تسلیم لیا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
جائے عبرت ہے جو اس برق ؔکا دیواں نہ چھپے
جس نے کتنے ہی کئے صاحب دیواں پیدا
+++
|