* میرا ذمہ نہیں پھر آپ کی رسوائی کا *
غزل
میرا ذمہ نہیں پھر آپ کی رسوائی کا
چھٹ گیا ہاتھ سے دامن جو شکیبائی کا
یاد رکھ اے مجھے دیوانہ بنانے والے
میری رسوائی ہے موجب تری رسوائی کا
مرگیا صدمہ دوری سے مریض الفت
کیا ہوا آپ کا دعویٰ وہ مسیحا کا
ان کی تصویر تصور سے مری سر گوشی
کتنا پرُکیف سماں تھا شب تنہائی کا
گل نچھاور ہوئے کانٹوں نے بھی پابوسی کی
رنگ دیکھا جو مری بادیہ پیمائی کا
ماجرائے دل پردرد سنانے سے رہا
میں سمجھتا ہوں اشارہ تری انگڑائی کا
سرنہ اس درسے اٹھے برقؔ دم آخر تک
یہ تقاضا ہے مرے ذوق جبیں سائی کا
+++
|