* خیال دلربا دل سے اگر کافور ہوجاتا *
غزل
خیال دلربا دل سے اگر کافور ہوجاتا
برہمن دیر سے واعظ حرم سے دور ہوجاتا
حفاظت سے جو ہم رکھتے نہ اس کو اپنے سینے میں
ذراسی ٹھیس لگتی شیشہ دل چور ہوجاتا
ہزار اپنا لیا تم نے مگر یہ کیسے ممکن تھا
کہ میرا دل تمہارے نام سے مشہور ہوجاتا
ترا تیر نظر پہلو میں چبھتا کاش یوں آکر
جگر میں زخم پڑتا زخم سے ناسور ہوجاتا
لگا تا لو نہ یہ ہر دم جو شمع روئے جاناں سے
چراغ چشم بینا بالیقین بے نور ہوجاتا
تری رحمت کے بل بوتے پہ جو چاہے کرے ورنہ
مجال انساں کی کیا تھی کہ وہ مغرور ہو جاتا
تمنائوں کو غش آتا مثالِ حضرت موسیٰ
ہمارا داغ دل گرمثل برق طور ہوجاتا
+++
|