* کھوکے اپنی ہستی کو کیا بتائیں کیا *
غزل
کھوکے اپنی ہستی کو کیا بتائیں کیا پایا
کچھ نہ جز خدا دیکھ کچھ نہ جز خدا پایا
سر جھکا دیا جس دم مل گیا سمندر سے
سراٹھا کے قطرے نے خود کو بلبلا پایا
دامن توکل میں جب جگہ ملی دل کو
فیض سے قناعت کے حرص کو ہوا پایا
گریۂ ندامت سے حشر میں فرشتوں نے
میری فرد عصیاں کا سب لکھا مٹاپایا
دیکھ کر انہیں ہر جاکہہ سکے نہ کچھ منہ سے
وہ کھلے تو اپنا ہی بند ناطقا پایا
صدقے اس کی رحمت کے جھٹ اٹھالیا مجھ کو
تھک کے راہ الفت میں جب کہیں پڑاپایا
جس کی جیسی فطرت تھی ویساہی مجھے پایا
آئینہ میں اپنا ہی عکس رونما پایا
عشق ہے علاج اپنا خود ہے لادوا لیکن
درد کی دوا پائی درد لا دواپایا
بحر غم میں ساتھی جب دوسرا نہ تھا کوئی
ناخدا کے پردے میں برقؔ نے خدا پایا
+++
|