* پختہ طبعوں کو حوادث کا الم کیا ہوت *
غزل
پختہ طبعوں کو حوادث کا الم کیا ہوتا
خوگر غم ہوں مجھے صدمہ غم کیا ہوتا
جز ردمد زیست کا ہے مایۂ صدلطف حیات
بڑھنے پا تا نہ اگر درد تو کم کیا ہوتا
کچھ نہ ہونا بھی تو موقوف ہے کچھ ہونے پر
کچھ جو موجود نہ ہوتا تو عدم کیا ہوتا
پائے جاناں سے اٹھانے کی کسے تھی فرصت
سر ہمارا درِ اغیار پہ خم کیا ہوتا
پردۂ راز سے آجاتے اگر وہ باہر
یہ زیارت کدۂ دیر وحرم کیا ہوتا
آج آئے ہوتم اے جان تسلی دینے
مرگئے ہوتے جو کل ہجر میں ہم کیا ہوتا
مر گیا لذت گفتار کی شیرینی پر
مجھ سے عاشق کے لئے شربت سم کیا ہوتا
جرم ہی پر تو ہے موقوف ظہورِ رحمت
ہم گنہ گار نہ ہوتے تو کرم کیا ہوتا
برقؔ ہر چیز کی پہچان ہے اس کی ضد سے
مہر ہوتی نہ تو احساس ستم کیا ہوتا
+++
|