* شیوۂ طعنہ و الزام بدلنا ہوگا *
غزل
شیوۂ طعنہ و الزام بدلنا ہوگا
یہ طریقہ بت خود کام بدلنا ہوگا
تونے اپنوں ہی میں ابتک جو چلا رکھاہے
اب وہ دورِ مئے گلفام بدلنا ہوگا
آج تو وضع بدلنے کیلئے کہتے ہو
کل کہو گے کہ تمہیں نام بدلنا ہوگا
دین فطرت میں بدلنے کی کہاں گنجایش
خود تجھے دشمن اسلام بدلنا ہوگا
کرچکی خلق میں اندھیر بہت اب تجھکو
صبح امید سے اے شام بدلنا ہوگا
دام گیسو میں دو بارہ نہ پھنسے گا کوئی
اب پھنسا ناہے تو یہ دام بدلنا ہوگا
وہ طریقہ تجھے اب اے بت قاتل جس سے
بزم الفت میں ہے کہرام بدلنا ہوگا
بلبل اس گل کیلئے اپنا رویہ تجھکو
دیکھ کر باغ کا انجام بدلنا ہوگا
اب وہ دن دور نہیں فیض سے سائنس کے جب
نقشۂ نامہ و پیغام بدلنا ہوگا
جدت فن کا تقاضا ہے کہ اس دور میں اب
جو طریقہ ہے بہت عام بدلنا ہوگا
مے پرستی پہ تو ہوں گے نہ کبھی ہم راضی
شیشۂ دل سے اگر جام بدلنا ہوگا
جن کی منزل کا نہیں برقؔ تعین کوئی
راستہ ان کو بہرگام بدلنا ہوگا
+++
|