* بھروسہ کیا کرے کوئی کسی سے کچھ بھل *
غزل
بھروسہ کیا کرے کوئی کسی سے کچھ بھلائی کا
نہیں اس عہد میں غمخوار جب بھائی ہے بھائی کا
نہ ہو بیخوف کوئی گردش گردون گرداں سے
لٹاتا تھا جو کل دولت وہ ہے محتاج پائی کا
ہوئے کنگال وہ جو درحقیقت مال والے تھے
بنے ہیں سیٹھ وہ ٹکڑا جو کھاتے تھے گدائی کا
کماتے ہیں جو کچھ پردیس ہم چاکری کرکے
تو آدھااس میں دھوبی کا ہے اور آدھا ہے نائی کا
غرض ہے برؔق کی ان ٹوٹی پھوٹی باتوں سے اتنی
کرو ہرگز نہ کام اے دوستو تم جگ ہنسائی کا
+++
|