* تری فرقت میں جل کر لذت سوزِ جگر جان *
غزل
تری فرقت میں جل کر لذت سوزِ جگر جانا
وہ لطف آیا کہ اب تو کھیل ہم سمجھے ہیں مرجانا
شبِ غم میں نہ جانا یہ کہ ہوتی ہے ہنسی کیسی
کلیجہ تھام کر ہاں بیٹھنا دو دو پہر جانا
یہ بے انصافیاں دیکھیں ہیں ہم نے بزم خوباں میں
کسی دشمن کی گستاخی کسی بیکس کے سرجانا
تماشے کا تماشہ بھی تھا اور عبرت کی عبرت بھی
مرا تیر نظر کھا کر قضا کے گھاٹ اتر جانا
جو گزرے وہ ادھر تو اے صبا اس بت سے کہہ دینا
ترے بیمار کی حالت بری ہے دیکھ کر جانا
سوا اس کے بھلا کیا فائدہ ہے اور الفت میں
تڑپنا، آہ بھرنا، تلملانا غم سے مرجانا
اڑادیں گے ستمگر باتوں ہی باتوں میں برقؔ اس کو
حریم عشق میں ہرگز نہ لے کر اپنا سر جانا
+++
|