* جتنے دنیا میں حسیں ہیں بے وفا ہیں س *
غزل
جتنے دنیا میں حسیں ہیں بے وفا ہیں سب کے سب
اُن کی الفت کا نتیجہ ہے فقط رنج وتعب
بے قراری کیوں نہ ہو دل ہی نہیں قابو میں جب
حضرت ناصح تمہیں بتلائو مجھ کو کوئی ڈھب
اے فلک کرتا ہے کیوں تو اپنی رفعت پر گھمنڈ
میرے نالے تیرے سر پر چڑھ کے ڈھادیں گے غضب
لاکھ دشمن ہوں جہاں میں تو ہمیں کچھ غم نہیں
سایہ گستر جب کہ ہے سر پر ہمارے فضل رب
گردشِ گردونِ گرداں تیرے صدقے جائوں میں
مجھ کو دکھلادے اگر تو روضۂ شاہ عرب
خود پسندی ہے جہاں باعثِ رنج وملال
صاف بتلاتی ہے ہم کو داستانِ بولہب
یاد کر اللہ کی اے دل جو بخشے فائدہ
ان بتوں کے حسن پر کیوں مررہا ہے بے سبب
اے خدا روزی رساں تجھ سا کوئی ہر گز نہیں
تو دیا کرتا ہے بندوں کو ہمیشہ بے طلب
برقؔ تو نے جب کمر باندھی ہے لکھنے کیلئے
فیض سے سالک کے ہو دیوان پورا کیا عجب
+++
|