* کس نے الت دی رخ سے نقاب *
غزل
کس نے الت دی رخ سے نقاب
اڑگیا رنگ رخ مہتاب
کچھ نہیں جز اک نقش برآب
ہستی ہے مانند حباب
سمجھا ہے تو جس زیست کو زیست
وہ تو ہے اک کیفیت خواب
نیند کے ماتے آنکھیں کھول
کرنا ہے جو کر لے شتاب
موت کرے گی سب کو زیر
رستم ہویا ہو سہراب
تجھ ہی میں ہے تیرا محبوب
جیسے گلاب میں بوئے گلاب
الا اللہ کی سن آواز
لا کی لگا دل پر مضراب
اللہ اللہ عشق کا جوش
ہوش وخرد ہیں پابہ رکاب
پڑتی ہے جن چیزوں پہ نگاہ
برق ہیں وہ دراصل حجاب
+++
|