* گجرا پہن کے میرے گریباں کے تار کا *
غزل
گجرا پہن کے میرے گریباں کے تار کا
دیوانے منھ چڑھاتے ہیں فصل بہار کا
پوچھا جو کس کا باغ میں روندا گیا ہے سر
سبزہ نے عاجزی سے کہا خاکسار کا
ہر گل کا ہر کلی کا ہے جامہ لہو لہان
گلچین یہ کس نے خون کیا ہے بہار کا
میرے ہر ایک شعر کا مضمون جانفزا
باغِ سخن کے حق میں ہے مثردہ بہار کا
نا آشنائے حال ہے بیچارہ کیا لکھے
ساکت قلم ہے میرے سوانح نگار کا
گلشن سے بوئے گل جو گریزاں ہوئی تو پھر
دوشِ صباپہ ہے وہ جنازہ بہار کا
سورج کا رعب اڑ کے ملاتا ہے خاک میں
اللہ رے حوصلہ مرے مشتِ غبار کا
شبنم سے پوچھ باد صبا جا کے یہ ذرا
کیوں رو رہی ہے باغ میں رونا بہار کا
اہل نظر کے واسطے یہ صفحہ ٔ جہاں
دفتر ہے برقؔ معرفتِ کرد گار کا
+++
|