* تمہارا ذکر کا جس کو شرف حاصل نہیں ہ *
غزل
تمہارا ذکر کا جس کو شرف حاصل نہیں ہوتا
کسی صورت سے ہر گز مطمئن وہ دل نہیں ہوتا
مرے ساقی کے میخانے میں جو داخل نہیں ہوتا
اسے جامِ شراب معرفت حاصل نہیں ہوتا
خرد راہ وفا میں دو قدم بھی چل نہیں سکتی
جنونِ عشق جب تک رہبرِ منزل نہیں ہوتا
گذر جائے نہ جب تک زندگی میں موت کی حد سے
حریمِ راز میں ہر گز کوئی داخل نہیں ہوتا
حجابات خودی جس وقت اٹھ جاتے ہیں انساں کے
کوئی پردہ پھر اسکی راہ میں حائل نہیں ہوتا
خدا شاہد ہے سر کار دوعالم ؐ کے طریقوں پر
جو دل عامل نہیں ہوتا کبھی کامل نہیں ہوتا
ملا کرتا ہے یہ اعزاز سچے سرفروشوں کو
لگا کرخوں شہیدوں میں کوئی شامل نہیں ہوتا
یہ دنیا کلفت و آلام کا گھر ہے یہاں رہکر
مبارک ہے جو اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتا
پسند آتی ہے غواصی اسے بحرِ حقیقت کی
سفینہ عشق کا منت کش ِساحل نہیں ہوتا
کلید عشق نے کھو لا جہاں قفلِ درِ وحدت
تو پھر پیش نظر حق کے سوا باطل نہیں ہوتا
مصائب عشق کے جو کر چکا انگیز پھر اس کو
کوئی مشکل سے مشکل کام بھی مشکل نہیں ہوتا
قفس سے جسم کے پاکر رہائی تادمِ محشر
یہ مرغ روح پھر پابند آب وگل نہیں ہوتا
سب اعضائے بدن اے برقؔ رہ جاتے ہیں شل ہو کر
دیار عشق میں کوئی حریف دل نہیں ہوتا
+++
|