* قائم جو مرا ذوق کلیمانہ رہیگا *
غزل
قائم جو مرا ذوق کلیمانہ رہیگا
بیتاب تجلی رخ جانانہ رہے گا
وہ رندہوں تاحشر سرِ محفل رنداں
چرچا مرا میخانہ بہ میخانہ رہے گا
یہ کہہ کے نکالا مجھے اس بزم سے اسنے
اپنائوں تو اپنے سے بھی بیگانہ رہے گا
غم دے رہ الفت میں مجھے تو کہ خوشی دے
ہر گام پہ اک سجدۂ شکرانہ رہے گا
پیتا ہے تری مست نگاہوں سے جو ساقی
کیوں منتظر گردشِ پیمانہ رہے گا
بھولے ہیں نہ بھولیں گے مجھے اہلِ محبت
قصہ مرا افسانہ در افسانہ رہے گا
شیانِ مئے عشق نہیں ظرف ضوابط
ہشیارا گر ہے تو وہ دیوانہ رہے گا
نورِ رخ محبوب کے اعجاز سے روشن
ہر آنکھ کی پتلی کا سیہ خانہ رہے گا
اے برقؔ قدم چومے گی اک دن ترا منزل
بڑھتا جو تو باہمتِ مردانہ رہے گا
+++
|